کابل، افغانستان: افغانستان میں طالبان حکومت نے خواتین کے لکھے ہوئے مواد پر ایک نئی پابندی عائد کر دی ہے، جس کے تحت خواتین کی تحریر کردہ کتابوں کی اشاعت، تقسیم اور فروخت پر مکمل پابندی ہوگی۔ اس فیصلے کے بعد ملک میں تعلیمی اور ثقافتی

طالبان نے خواتین کی تحریر کردہ کتابوں پر پابندی عائد کر دی

آزادی پر گہرا اثر پڑنے کا خدشہ ہے۔

اطلاعات کے مطابق، طالبان حکام نے کہا ہے کہ یہ پابندی "اسلامی اصولوں کے مطابق" نافذ کی جا رہی ہے۔ تاہم ماہرین تعلیم اور حقوقِ نسواں کی تنظیمیں اس اقدام کو خواتین کی تخلیقی آزادی اور علمی سرگرمیوں کے لیے ایک سنگین دھچکہ قرار دے رہی ہیں۔

افغان کتاب فروشوں اور ناشروں کا کہنا ہے کہ اس پابندی کے نفاذ سے نہ صرف خواتین مصنفین کی آمدنی متاثر ہوگی بلکہ ملک میں تعلیمی مواد اور ادب کی موجودگی بھی محدود ہو جائے گی۔ کئی ناشرین نے اس اقدام کو عالمی سطح پر افغانستان کی ثقافتی اور علمی سرگرمیوں کے لیے پیچھے دھکیلنے والا قرار دیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین کے لکھے ہوئے مواد پر پابندی، نہ صرف صنفی عدم مساوات کو بڑھائے گی بلکہ نوجوان نسل کے لیے معیاری اور متنوع تعلیمی وسائل تک رسائی بھی محدود کر دے گی۔ کئی عالمی تنظیمیں اور انسانی حقوق کے گروہ طالبان حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اس فیصلے پر نظر ثانی کرے اور خواتین کو تعلیم و ادب کے شعبے میں برابر کے مواقع فراہم کرے۔

طالبان کے اس فیصلے کے بعد ملک میں خواتین کی تخلیقی اور علمی سرگرمیوں پر ایک سنجیدہ بحران پیدا ہو گیا ہے، اور افغان معاشرے میں اس کے اثرات آنے والے وقت میں مزید واضح ہوں گے۔