مرد عورت ستر اسی برس کی عمر تک جنسی ملاپ کا لطف اٹھا سکتے ہیں

Ticker

20/recent/ticker-posts-on

مرد عورت ستر اسی برس کی عمر تک جنسی ملاپ کا لطف اٹھا سکتے ہیں

قوت مردانہ بڑھانے کی ادویات
 ایک سنگیت کار اور عورت شری دلیپ کمار رائے سنگیت کار اور فلاسفر ہیں۔ آپ نے کئی کتابیں لکھی ہیں۔ دلیپ کماری کے بھجن سارے بھارت میں ریڈیو پر بڑے شوق کے ساتھ سنے جاتے ہیں اور جس کو شری رائے کے سامنے بیٹھ کر بھجن سننے کا موقعہ ایک دفعہ بھی حاصل ہو جائے تو وہ ان کی شخصیت اور مقناطیسی آواز کا دیوانہ ہو جاتا ہے۔

گزشتہ ہیں برس سے انہوں نے پونا میں آشرم بنایا ہوا ہے۔ امریکن انگریز فوج کے جوان بریگیڈیر پاری مراشی اور گجراتی ڈاکڑ اور بڑے بڑے عالم روزانہ شام کو آپ سے بھجن سنے آتے ہیں۔ ان کی ایک خاص شاگرد اندرابی ہیں اور ان دونوں کی عظمت کا اعتراف صرف گجرات اور مہاراشٹر میں ہی نہیں بلکہ پانڈ کی اور

کلیت کے لوگ بھی ان کے بڑے عقیدت مند ہیں۔ پتا کا آشرم بڑے خوبصورت اور آرام کی ہر چار سے مزین ہے۔ آشرم کے نزدیک عقیدت مندوں نے کٹائیں بنا لی ہیں۔

دلیپ کمار رائے عظیم شاعر رابندر ناتھ ٹیگور کے بڑے نزدیکی دوست اور عقیدت مند تھے اور اکث گمرے خیالات پر بحث ہوا کرتی

قوت باہ بڑھانے کی ادویات تھی۔ اس اہم گفتگو میں مفکروں کی عورت کی تصویر کتنی خوبصورت اور حسین ہے۔

ہم اس شاعر کے ساتھ اۓ پی رہے تھے۔ ایک حسین سو تھی۔ سورج کی پہلی کرنوں نے سنہری رنگ کے گلے کے درخت اور بالوں پر بکھر کر ان میں تازگی بھر دی تھی اور وہ ٹھنڈی ہوا کا استقبال کر رہی تھیں۔

عورتوں کی طرف سے آج کل اتنا شور برابر کے حقوق کا سنتے ہیں۔ اس کے متعلق آپ کے کیا خیالات ہیں۔ میرا مطلب ہے سوشل حقوق اور ذمہ داریوں کے متعلق؟“ میں نے سیدھا سوال گروویو پر کیا۔

آپ کو عام سا جواب دیتا ہوں ---- انہوں نے کہنا شروع کیا۔ میں ہمیشہ اس بات کی حمایت کرتا رہا ہوں کہ عورت مرد کی ترین اور ادب کے قائل ہے نہ کہ اس کے ساتھ مقابلہ کرنے کے۔ سے بات چاہے اس زمانے کو پانی لگے لیکن زندگی کے ماتھے پر پڑی تجربے کی لکیروں نے بی نتیجہ نکالا ہے جس کی وجہ سے میں اس بات کو دہراتا ہوں کہ عورت کو باہر نکل کر مرد کی طرح بھاگ دوڑ ہے کچھ ہاتھ نہیں آتا کیونکہ جس کام سے عورت کی زندگی میں خوبصورتی سلیقہ پیدا نہ ہو اس سے اس کو بالکل تیلی نہیں ہوتی۔ اس

کا ساتھ (خاوند کو بھول جاتا ہے اور اکثر برے راستے پر چل پڑتا

ہے اور عورت ان غیر ضروری باتوں میں اضافہ کرنے کی بجائے مدن سے گھر کو چلاتی ہے۔ یہ عورت کا ہی کام ہے کہ گھومتے لڑکھڑاتے مستول کو اپنی سیانی سوجھ سے سرتال پیدا کر کے طوفان میں بہتی زندگی کی کشتی کو کنارے پر لگائے۔ ورنہ یہ گمری مصیبت میں پڑ جائے گی۔ -

تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ عورت کو مرد کے برابر حقوق کا مطالبہ کرنے سے روکنا چاہئے؟

نہیں۔ یہ بات نہیں۔ میرا مطلب صرف یہ ہے کہ عورت کو بھولنا نہیں چاہئے کہ اس کی زندگی کا مشن ساتھی (خاوند) کی نقل کرنا نہیں۔ بے شک وہ ساتھی کو تعاون دیتی ہے اور اس کی مدد کے لئے تیار رہتی ہے لیکن اچھی بات کی ہے کہ وہ اس بات کو دل میں بٹھا

لے کہ تعاون کی دوسری صورت نقل کرنا نہیں ہے۔ جو مدد اور تعاون بوی دے سکتی ہے وہ دوسرا اور کوئی نہیں دے سکتا۔ دوسرے الفاظ میں اس کو سوسائٹی میں اپنا خاص ہی مقام رکھنا چاہئے اور یہ وہ صرف اپنی قابلیت کی بنا پر ہی حاصل کر سکتی ہے۔

گر کیا مرد کے کاروباری میدان میں بھی عورت اس کا ہاتھ نہ

پٹا

؟»

ہیں۔ اس لئے کہ عورت کا مزاج اس کام کے موافق نہیں۔ وہ کبھی بھی مرد کے کاموں کو عموما" نبھا نہیں سکتی کیونکہ عورت میں قوت برداشت ہے۔ عورت درخت کی جڑوں کی طرح ہے اور مرد درخت کی ٹہنیوں کی طرح بڑھتاء خطرے جھیلتا، کام کاج کرتا ہے۔ عورت اور مرد کے میل سے بنا زندگی کا پیڑ تب ہی چل پھول سکتا ہے

اگر اس کی جڑیں مضبوط ہوں۔ عورت پوشیدہ طور پر زندگی کے بوٹے کو بڑا ہونے میں مدد دیتی ہے تاکہ شاخوں کا حصہ بھاری ہو کر رخ منفی نہ ہو جائے یا گر نہ جائے۔ اس طرح عورت مرد کی خصلت اور شخصیت میں سے چمکتی ہے۔

معاف کرتا گرددو۔ یہ تو ایک اور طریقے سے عورت اور مرد کے درمیان اصلی فرق ہی کہنا چاہئے --» .

بیشک --- کیا آپ کا خیال ہے کہ قدرت کا رانی کھیل ویسے بھی اسی طرح قائم رہتا؟ ہرگز نہیں۔ ناممکن ہے۔ اگر عورت مرد کا ہو بہو دوسرا حصہ ہوتی اور اسی طرح کا اس کا پارٹ ہو تا تو جس طرح کی زندگی سے ہم سب منسلک ہیں اس کا کبھی کا خاتمہ ہو گیا ہوتا لیکن خوش قسمتی ہے کہ عورت مرد کا عکس نہیں اس کا حصہ ہے۔ زندگی کے سفر کا ساتھی ہے۔ اسی لئے یہ بحث جاری ہے اور زندگی کی لیلا کا کھیل جاری ہے۔

اسی وجہ سے ---گرو دیو نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا قدرت نے عورت کو وہ خاصیتیں بخشی ہیں جو مرد میں نہیں ملتیں۔ مثال کے طور پر عاجزی صبر اور اپنا آپ نچھاور کرنا۔ ان صفات نے انسانی زندگی میں مضبوطی پیدا کی ہے۔ عورت رہ کی زندگی کا خزانہ

ہے اور درد مندوں کی شفا ہے۔ اس کے بغیر زندگی کی خوشیاں بے معنی ہوتیں اور زندگی میں اپل کور اور لطف نہ رہتا۔

کئی لوگوں کا خیال ہے کہ عورت صرف گھٹیا کام کر سکتی ہے جس کی وجہ سے وہ مرد کے برابر اونچی سطح کے کاموں میں کامیاب نہیں ہو سکتی؟»

میں ایسا گھٹیا یا اس کی صلاحیت سے زیادہ کام کبھی بھی اس کے پرد نہ کروں اور جو حصہ عورت کا زندگی میں ہے میں اس کی بے حد قدر کرتا ہوں۔ جیے مرد سے حاصل کیا ہوا زندگی کا پتا ہے، عورت کی زندگی میں ویسے ہی مرد کے لاشعور دل میں عورت کا اثر پاتا ہے اور وہ کئی کاموں میں کامیاب ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے عورت کا کام صرف جسمانی نہیں۔ مرد کے دماغ کی تخلیق کے لئے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اور عورت کی جسمانی تکمیل کے لئے مرد کا وجود ضروری

ہے۔ عورت کا کردار سیٹ کے پیچھے کام کرنے والوں کا سا ہے اور اس کو ہر کوئی نہیں پہچان سکتا کیونکہ ہم میں اس کا تصور کرنے کی بھی

اہلیت نہیں۔

میں بھی بھول کر بھی عورت ذات کی شان میں گستاخی نہیں کر

-

جسمانی خوبصورتی اور جنسی ملاپ ہر عورت اور مرد کو جسمانی خوبصورتی پر کسی حد تک جنی کشش با سیکس اپیل پیدائش ہی سے ملی ہوتی ہے۔ اب وہ زمانہ نہیں جب امیروں وزیروں اور نوابوں کے خاندان قیمتی لباس پہنے کی وجہ سے خوبصورتی کے مالک کہلاتے تھے۔ آج ہر مرد اور عورت تھوڑے سے لباس کے انتخاب اور احتیاط کی وجہ سے چست اور پرکشش بن سکتا ہے لیکن موسم کی تیزی گری سردی اور تیز ہوا کے اثر سے چنے کے لئے کریم پاؤڈر اور لپ سٹک کا سلیقہ سے استعمال چمک اور خوبصورتی بڑھانے میں مدد کرتا ہے تاہم اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کاسمیٹکس کا زیادہ استعمال کرکے اپنی شخصیت کو بناوٹی اور

تانتایا جائے۔ : جنسی کشش اور خوبصورتی کا اپنا اپنا علیحدہ اثر ہوتا ہے۔ خوبصورت مرد عورت میں جنسی کشش ضروری نہیں ہوتی بلکہ جو

قوت باہ بڑھانے کی ادویات عورت ویسے عموما" خوبصورت نہیں کہلاتی ، اس میں بھی جنسی کشش ایکس اپیل ہو سکتی ہے۔

جنسی کشش اور بناؤ سنگھار

و فلة ..

- مشکل اس وقت ہوتی ہے جب ایک ساتھی جنسی کشش اور خوبصورتی کا دیوانہ ہو اور اس کو اپنے خاوند یا بیوی کی طرف سے ثبت جواب نہ ملے۔ اس سے دکھی ہو کر وہ زندگی کی شراکت نبھاتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے دور ہوتے جاتے ہیں۔ جب دل یوں اچاٹ ہو جائے تو پھر جنسی ملاپ کا لطف کیسے کوئی اٹھا سکتا ہے؟

سوتر تیرھویں میں بھی سنت واتسائن عورت کو ہدایت دیتا ہے کہ ” بے شک میاں بیوی آپس میں اکیلے ہی ہوں تب بھی بیوی کو ا پنے سنگار کی طرف سے لاپرواہ نہیں ہونا چاہئے۔

اس طرح کے مزاج اور عادت سے آپس میں پیار بڑھتا ہے اور ایک دوسرے کو خوش کرنا اچھا لگتا ہے۔ جس کی وجہ سے قدرتی طور پر سیکس اپیل میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ آج کل کے نوجوانوں کی پریشانیوں کا تو کوئی شمار ہی نہیں۔ میں برس کی عمر میں ہی سیر ہو کر یا کسی نہ کسی پریشانی کی وجہ سے جنسی ملاپ کے قابل نہیں رہتے۔ مگر

تھوڑی سی تعلیم آپس کا پیار سمجھ اور ہدایت سے پختہ عمر تک اس کام کو صحت مند اور خوشی سے بھر پور رکھا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ کامیابی تب ہی حاصل ہو سکتی ہے جب دونوں ساتھی میاں اور بیوی ایک دوسرے کا ساتھ دینا قبول کریں۔

ابتدائے لذت جوان لڑکے لڑکیوں کو رکھ کر اور وہ جوان لڑکوں کو دیکھ کر دور ہی سے اس کشش سے دم بخود رہ جاتے ہیں۔ یہ میل ہم آہنگی قدرتی اور ہر نارمل عورت اور مرد کے اندر رہتا ہے اور کسی کی خوبصورت صورت چوڑی چلی چھاتی اور کسی کا کومل بدن گول جوبن بھری چھاتیاں آنکھوں کو مسحور کر لیتی ہیں۔

عورت اور مرد کو ایک دوسرے کے جسم کا کون کون سا حصہ زیادہ پسند اور جذبات کو بھڑکاتا ہے۔

کسی کو عورت کی آنکھیں جکڑ لیتی ہیں۔ کوئی گول بھردیں چھاتیوں کو دیکھ کر مسحور ہو جاتا ہے۔ کوئی عورت کی گول سائیڈز کو دیکھ کر لطف اندوز ہوتا ہے۔ اور کوئی گلابی ہونٹوں کو چومنے چوسنے کا دیوانہ ہو تا ہے۔

اور ای طرح عورتیں بھی مردانہ جسم اس کا چہرہ قد کاٹھ چھاتی اور شخصیت کو رکھ کر چکراتا جاتی ہیں۔

عورتوں اور مردوں کی پند پر ایک سروے کے مطابق سب نے کفش یاعلیٹریکشن کا پہلا درجہ آنکھوں کو دیا اور آنکھوں کے بعد بال دانت ناک رخسار اور کانوں کا درجہ تھا۔

مردوں اور عورتوں کی مشترکہ رائے کے مطابق باٹھ نمدی نے آنکھوں کو اولیت دی۔

جب عورت سے پوچھا گیا کہ آنکھوں کے بعد اس کو مرد کا کون ساحصہ پر کشش یا متاثر کرتا ہے تو بچپن فیصدی عورتوں نے مرد کا چره کیا جو کشش کا مرکز ہوتاہے۔ -

مرد کے جسم کے اور حصوں کے بارے میں سروے کے مطابق صرف آٹھ قیدی نے مرد کے بال‘ سات نمدی نے چوڑے . کنے چھ فیصدی نے چھاتی پر فیصدی نے ہاتھ اور سر اور دو فیصدی نے مرد کے باشم کو اپنی پسند کا مرکز بنایا۔

لیکن یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ چونکہ مرد کی پوشاک الی ہوتی ہے جس میں سے عورت کی طرح اس کا جسم جھانکتا نظر نہیں آتا اس لئے عورتوں کو آسانی سے معلوم نہیں ہو سکتا کہ مرد کے چہرے کے علاوہ اس جسم کا اور کون سا حصہ ان کو متاثر کرتا ہے۔

عام عورت کو دراصل اس بات کا احساس بھی نہیں ہوتا کہ کون سا مرد کس وجہ سے اس کو اچھا لگتا ہے۔ اسی لئے سروے کی جگہ جہاں سوال کا جواب یہ سمجھ نہ آیا، وہاں دوسری وجوہات کی وجہ معلوم کرنے کی ہدایت تھی۔ جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ اکثر عورتیں مرد کی طرف غور سے یا مرد کے جسم کی طرف دیکھتی ہیں یا یہ ای روایت کے مطابق ممکن نہیں۔

آج کے زمانے کی عورتیں بڑی عمر کی عورتوں سے زیادہ باشعور اور مرد پسند کی شوقین ہیں۔ میں کے لگ بھگ اور اس سے کم عمر کی دس فیصدی عورتوں کو مرد کی چھاتی بہت پسند ہوتی ہے مگر جوں ہی وہ ۳۵ برس کے قریب پہنچتی ہیں تو ان کی رائے بدل جاتی ہے۔ کی بات مرد کے کولہوں اور زانوں کی ہے۔ چھوٹی عمر کی عورتیں مرد

کے ان اعضاء کو سیکسی سمجھتی ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان کی یہ دی بھی ختم ہو جاتی ہے۔

انگلینڈ کے مختلف جغرافیائی حصوں کی عورتوں کی پند بھی مختلف ثابت ہوئی ہے۔

سکاٹ لینڈ کی عورتوں کو مرد کے بالوں میں کوئی دلچسپی نہیں مگر ویلز اور ویسٹ کنٹری کی چھ گنا زیادہ عورتوں کو مرد کے جسم کے بال بہت متاثر اور برا نی کرتے ہیں۔ اس کے مقابلہ پر و یا عورتوں

کو مردوں کے چوڑے کندھے اچھے لگتے ہیں کیونکہ گیارہ فیصدی عورتوں نے اپنی یہ پسند بتائی ہے۔ جس کے مقابلے پر سکائش عورتوں کی تعداد صرف دو فیصد ہی تھی۔
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو مرد محنت کر کے جسم سنوارتے اور کسرت کرتے ہیں ان کو پہلے یہ دیکھ لینا چاہئے کہ کون سے علاقے کی حسینہ کو متاثر کرنے کے لئے وہ جسمانی خوبصورتی کو بڑھانے میں مخت کر رہے ہیں۔
مردوں کی عورت پند سروے کے اعداد و شمار کے مطابق مردوں کی زیادہ پسند عورتوں کی طرح چہرہ ہی تھا۔ میں ندی نے پلی کشش چہرہ ہی بتایا اور دوسرے درجہ پر پسندیدہ حصے ٹانگیں ہیں جس کو میں نیمدی مردوں نے پرکشش بنایا۔ بالوں اور دوسرے اعضاء کو اس کے بعد مرد پسند کرتے ہیں۔ اس سروے سے یک په چکا ہے۔
بڑی عمر کے مردوں کی پند جوان مردوں سے مختلف ثابت ہوئی ہے۔ کیونکہ اس عمر کے مردوں نے چہرے کے بعد دوسرا درجہ چھاتیوں کو دیا ہے۔ اس کے مقابلہ پر جوان عمر کے مردوں کو میں فیصدی عورتوں کی چھاتیاں بہت متاثر کرتی ہیں اور میں برس سے کم عمر کے مردوں میں سے صرف بارہ فیصدی کو چھاتیاں دوسرے درج
پر متاثر کرنے والا حصہ محسوس ہوتا ہے۔ لیکن پچیس برس کی عمر کے مردوں کو جسم کے نچلے حصوں میں زیادہ د چھپی ہوتی ہے، جیسے کر سائیڈز، پیٹھ اور طویل قامت مانگیں ان کو زیادہ اچھی لگتی ہیں۔
سروے کے مطابق بہت زیادہ امیر اور بہت زیادہ غریب کو متوسط مردوں کے مقابلے پر عورتوں کی چھاتیاں بہت اچھی لگتی ہیں اور غریبوں کے مقابلے میں امیر مردوں کو عورتوں کی بھاری سائیڈز بہت پسند ہیں۔ مگر ٹانگیں ہر طبقہ کا پسندیدہ حصہ ثابت ہوئی ہیں۔
جسم کے مختلف اعضاء کی پسند کے اعداد و شمار جمع کرنے پر مردوں اور عورتوں سے یوں پوچھا گیا کہ کوئی عمر میں مرد پوری خوبصورتی یا کشش کا مرکز محسوس ہوتے ہیں۔
مرد کے تین عمر گروپوں میں پہلا درجہ اکیس سے پچیں سال کے مرد دوسرا درجہ ۲۹ سے تمہیں سال اور تیسرا درجہ پندرہ سے ہیں۔ سال کا ہوتا ہے ان کو پسند کیا گیا ہے۔
ایک دلچسپ سروے یہ تو مرد کے اپنے انتخاب اور اپنے بارے رائے تھی۔ کیونکہ مرد اپنے آپ کو سیکس کے رخ پر پرکھ کر اپنی رائے دیتے ہیں لیکن
یہی سوال جب عورتوں سے پوچھا گیا کہ کون سی عمر میں مرد زیاده پیارے اور خوبصورت لگتے ہیں تو مردوں سے زیادہ عورتوں نے مردوں کی شخصیت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ مرد میں سے ۳۵ برس کی عمر تک بڑے پیارے اور متاثر کن ہوتے ہیں۔
ایک اور دلچسپ بات اس سروے سے یہ بھی ثابت ہوئی کہ جس عمر کے گروپ سے پوچھا گیا کہ عمر کا کون سا حصہ ان کو با مولت اور خوشحال محسوس ہوا ہے تو ہر عمر کے لوگوں نے اپنی ہی عمر کو خوشحال اور دلچسپ بتایا۔ و ۵۰ سال کی عمر کے لوگوں نے عمر کی یہ حالت دلچسپ اور خوشحال بتائی ۔ مگر ستر فیصدی مردوں نے کہا کہ مرد کی شخصیت اور اس کی انتہا پندرہ سے بیس سال کی عمر تک ہوتی ہے۔
متوسط طبقہ کے مقابلہ پر مزدور طبقہ کے لوگ جو ان کے برسوں کو ہی زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میچورٹی یا سیانی عمر کا چارم اور خوبیوں کا چھوٹی عمر کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں۔
عورتوں سے عورتوں کے بارے پوچھا گیا کہ کون سی عمر میں عورت حسین ہوتی ہے؟
زیادہ تر نے کہا کہ پندرہ سے میں سال کی عمر تک عورت کے جون میں کشش رہتی ہے۔ مردوں کی پسند کے مطابق ان کو میں
برس کے اندر اندر کی عورت حین معلوم ہوتی ہے۔ اس کے حق میں 20 فیصدی ووث تھے۔ لیکن مردوں کی پسند کے مقابلے پر عورتوں نے اپنی جنس کے حق میں بتایا کہ عورت چالیس برس کے بعد بھی بہت جازب نظر ہوتی ہے۔
سروے کے علاوہ جب عورتوں کا انٹرویو کیا گیا تو ان میں سے میں نیدی نے کہا کہ عورت بے حد دلکش میں بری تک ہوتی ہے لیکن اس کے مقابلہ پر تمیں فیصدی عورتوں کی مردوں بارے رائے تھی کہ وہ بھی میں برس کی عمر تک بہت متاثر کرنے والے ہوتے
جنسی ملاپ اور تعلقات یہ دونوں قول حقیقت اور بنیادی جنی ملاپ اور مرد و عورت تعلقات کو جھٹلاتے ہیں۔ یہ تعلقات مشینی ان کے لئے ہیں جو اس کو مشینی خود غرضی کے طور پر اپناتے ہیں۔ جناں محبت نہیں پیار نہیں صرف ایک دوسرے کا جسم دو گھڑیوں کے لئے استعمال کرنے کی بات ہو تو پھر یہ مشینی اور نہ حقیقی ہوتا ہے۔ ہاں! ایک یہ بھی سچائی ہے کہ عام مرد جنسی تعلقات کو صرف اپنی ضرورت خیال کرتے ہوئے اپنی
جسمانی خوشی کو اہمیت دیتے ہوئے اپنی ساتھی کا خیال تک نہیں کرتے سوائے اس کے کہ اس کے جسم کو استعمال کئے بغیر ان کی ضرورت پوری نہیں ہو سکتی۔ ایسی حالت کسی کے لئے مشین کسی کے لئے ریپ اور کسی کے لئے دو گھڑی کا شوق ہوتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ انٹر کورس کو برا نگینہ کرنے اور اس کی جنسی تسکین کے لئے مانا ہی نہیں جانا بالکل بے بنیاد ہے۔
وومن لیبر موومنٹ کا بیان ہے کہ کسی شاستر، کسی عالم کی مفکر، کسی ماہر جنیات --- واتسائن‘ پنڈت کو کا فراڈ کنزے یا ماسٹرز اور جاسز نے آج تک نہیں کہا کہ یہ کام عورت کی جسمانی خوشی اور جنسی تسکین کے لئے نہیں۔ اگر یہ مشترک تعلق عورت کے لئے ہے تو عورت کے جنسی جذبات جنسی امنگ کو اس نے کس طرح اور کسی تعلق یا کسی کے ساتھ منانا ہے؟ ویروں اور شاستروں
نے مرد اور عورت کو اس کام کے لئے اتنا ہی حوصلہ اور ساتھ ہی کشش بخشی ہے جس سے وہ ایک دوسرے میں ایک جان ہو کر گھس جاتے اور روحانی لطف اٹھاتے ہیں۔ شیر ہائیٹ اور اس کی دوست پیریش لن اور سوزن ان سب کے پرایک خبط سوار ہو گیا ہے کہ
مرد عورت کو صرف اپنی جسمانی تسکین کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس لئے عورت کو اپنی جنسی پیاس بجھانے کے لئے مشت زنی
قوت باہ بڑھانے کی ادویات یا ہم جنسی کے تعلقات پیدا کرنے چاہئیں۔
عقل اور علم جس کا پرچار امریکہ میں ٹی وی اخباروں رسالوں، فلموں اور کتابوں کے ذریعے تمام دنیا کے ممالک سے زیاده
کیا جاتا ہے وہاں کے مردوں کو عورتوں کے پوشیدہ اعضاء کا ابھی تک کوئی علم نہیں۔
سوالنامے میں حصہ لینے والی تین ہزار عورتوں نے اپنی ذاتی زندگی کی الجھنیں میں ہائیٹ کے ساتھ اس خیال سے مشترک کیں کہ شاید کوئی پتہ تھا کوئی میری زندگی کی جھلک یا جنسی تعلقات کو باسکولت پارا؟ دلچسپ اور دونوں (مرد عورت کی زندگی کو بنانے میں مددگار ہو سکے۔ مگر ہائیٹ رپورٹ کو تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ
ہے عورت کو مرد کی کوئی ضرورت ہی نہ ہو۔ اس نے سارا زور اس بات پر لگا دیا ہے کہ عورت اپنی جنسی تسکین خود کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔
.آخر خوبصورتی
ہے کیا؟
اند
دنیا کے ہر ملک میں لوگوں کا خوبصورتی کے بارے میں اپنا اپنا معیار ہوتا ہے ---- لیکن ایک بات جو عموما" دیکھنے سنے یا پڑھنے میں
آتی ہے وہ یہ ہے کہ عورت کے جسم کی اطراف بھرویں گول چھاتی جو اوسطا سائز کی ہوتی ہے لیکن بہت بھاری نہیں اور اپنے ہی برویں گول سانڈز مرد کی نظروں کو جکڑ لیتے ہیں۔ جنی کشش کی خوبصورتی کو متعین نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہر مرد کا جنسی انتخاب اپنا اپنا ہوتا ہے۔ ایک اوا ایک مسکراہٹ، گفتگو کرنے کا لہجہ ، بیٹھنے کا طور
طریقہ ایک نگاه ---- کچھ بھی اور سب کچھ جنسی کشش کی وجہ ہو سکتی ہے۔ لیلی کی خوبصورتی کو مجنوں کی آنکھیں ہی بیان کی ہیں۔
سیکس اپیل یا ساتھی کا انتخاب ہر ایک کا اپنا اپنا ہوتا ہے۔ کسی کو په تر عورت پسند ہے اور کسی کی آنکھ کو دراز قدر وکی کی تلاش ہوتی ہے۔ کسی کو گول مٹول بمروں کی موہ لیتی ہے، کسی کو چھوٹی چھوٹی امیوں کی طرح چھاتیں اور کوئی چکی چھاتیوں کا روانہ ہوا
ہے۔ مغربی ممالک میں بی ٹانگوں کی پیلی کر سخت چھاتی اور سائیڈز کی گولائیوں کو رکھ کر مرد کور ہو جاتے ہیں۔ برما کے مرد کو عورت کی بھرویں سائیڈز جتنا برا نی کرتی ہیں اتنا چھاتی کا ابعد ان
کو نہیں اکساتا۔ اسی وجہ سے بری عورتیں کرتی ریشم کی کسی کر باندھی گئی لنگی پہنتی ہیں، جس میں سائیڈز کی صاف جھلک نظر آتی
ہے۔ بھارتی عورتوں کے کئی مختلف لباسوں میں سے تیض شلوار میں سے چھاتی کا ابھار جسم کے دوسرے حصوں سے زیادہ نمایاں ہوتا ہے
لیکن چولی اور ساڑھی میں سے جسم کے بل اور خصوصا" چھاتیوں کا واضح روپ نظر آتا ہے لیکن آج کے فیشوں کی نقل کرتے ہوئے کم ہوتے ہوتے چولی صرف دو تیون تک ہی رہ گئی ہے۔ مگر جو خوبصورتی میں چولی کی ہے وہ پشت کی برہنگی میں نہیں۔ چاہے انگریزوں کی طرح وائیٹڈ نیک بھی اپنا لی جائے۔
افریقی ممالک میں بے حد درجہ کی موٹی عورت میں سیکس اپیل مجھی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ بارہ برس کی لڑکی کو چکناہٹ اور نشاستے والی خوراک دی جاتی ہے تاکہ اس کی چھاتیاں اور سائیڈز گوشت کی توں سے بھر جائیں۔ جتنی زیادہ عورت موٹی ہوگی اس کی طرف مرد اتنی ہی زیادہ چور نگاہ سے دیکھتے ہیں اور کنواری لڑکی کے گھر مرد منتروں کی قطاریں لگ جاتی ہیں۔
ایشیائی ممالک میں کھلے رنگ یا گورے رنگ کو خوبصورتی کا پہلا درجہ مانا جاتا ہے۔ اس کو عام لوگوں نے کئی نام دے رکھے ہیں کہ اس کی بیٹی یا بہو یا بیوی تو گوری چی ہے مکمن کا پیڑا ہے دودھ جیسی سفید ہاتھ لگانے سے میلی ہوتی ہے۔ جہاں بیٹھے وہ جگہ جگمگا اٹھتی ہے اور اس طرح کالے اور گورے رنگ کے متعلق پنجاب کے لوگ گیت بھی بڑے مقبول ہیں مگر خوبصورتی کی خاص علامت جلد کی رنگت نہیں ہوتی۔
یورپ اور امریکہ میں لوگ لوشن مل مل کر اور دن میں دھوپ میں بیٹھ کر تانے جیسی رنگت حاصل کرنے کی انتھک کوشش کرتے ہیں بلکہ خاصی رقم خرچ کرکے دھوپ والے ممالک میں دو ہفتے گزار کر بڑے فخر سے روغنی جسم کا دکھاوا کر کے خوش ہوتے ہیں۔ انگریزی ناولوں، فلموں اور ڈراموں میں مردوں کو ینگ ڈارک اور ہینڈ سم کہہ کر ان کی تعریف کی جاتی ہے اور لڑکیاں ایسے خوبصورت نوجوانوں کے پیچھے پھرتی ہیں۔ ایشیائی لوگوں کی قدرتی رنگت اپنے آپ میں حسین ہے، جس پر سب کو فخر ہونا قدرتی بات ہے لیکن خوبصورتی اور شخصیت کو اگر سنبھالا نہ جائے تب اس کا حسن قائم نہیں رہتا۔ وہی مرد یا عورت جو شادی سے پہلے خاص احتیاط سے بن سنور کر بیٹھتے ہیں شادی سے تھوڑے ہی عرصہ بعد اپنے آپ کی طرف سے لاپرواہ ہو جاتے ہیں۔ خصوصا" گھر میں کئی عورتیں جو دوپہر تک اپنا بنا سنورنا ختم نہیں کرتیں۔ وہی رات کے گندے کپڑے بکھرے بال، بغیر غسل کے جرم ، جس سے آپ وہ بے خبر ہوتی ہیں کہ خاوند کو صاف ستھری پنی سنوری عورت کی چاہ ہوتی ہے اور ایسے ہی بہت سے مرد بھی گھر بیٹھے اپنی سجاوٹ سے بے خبر رہتے ہیں۔ نہ ایک کی ضرورت کا خیال کرتا ہے اور نہ دوسرے کو پرواہ
ہوتی
ہے۔
.
جنسی ملاپ کی انتہائی عمر تمام بنی ماہرین کا
کہنا ہے کہ مرد عورت ستر اسی برس کی عمر تک جنسی ملاپ کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔
لیکن اتنے حسین اور پر کشش جوڑوں میں آپسی جنسی کشش شادی کے چند سال بعد ختم کیوں ہو جاتی ہے؟ یہ حالت صرف ماری ہی نہیں دنیا کے تقریبا" سارے ملکوں کے باشندوں کی ہے۔ ان کو پہلے تو شادی کرنے کا شوق ہوتا ہے اور پھر چند ہی سالوں میں ایک دوسرے کی طرف سے بیزار ہو کر ایک دوسرے پر بیکار پڑتے ہیں۔ بہت کم ایسے جوڑے ہوتے ہیں جو آخر عمر تک ایک دوسرے کی خوشی کے لئے خوشی خوشی زندہ رہتے ہیں۔
شادی کے نئے نئے شوق کے بعد خاص کر جب دو چار بچے ہو گئے ہوں تو نہ خاوند اپنے آپ کو صاف ستھرا اور باحفاظت رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور نہ بیوی کو اتنی فرصت ملتی ہے اور نہ ہی اس بات کی طرف وہ کوئی توجہ دیتی ہے۔ زندگی جیسے ایک بوریت ہو۔ کوئی اچھی نہیں کوئی ہنسی مذاق نہیں اور پھر کیسے کسی کا ایک دوسرے کے بدن کو چومنے چاٹنے کو دل چاہے؟ یہ تو پھر وہ حالت ہو

Post a Comment

0 Comments