صفائی اور پاکیزگی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ غسل اور وضو ہے

Ticker

20/recent/ticker-posts-on

صفائی اور پاکیزگی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ غسل اور وضو ہے

 

صفائی اور پاکیزگی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ غسل اور وضو ہے

صفائی اور پاکیزگی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ غسل اور وضو ہے

 

نماز کے لیے طہارت ایسی ضروری چیز ہے کہ بغیر اس کے نماز ہوتی ہی نہیں بلکہ جان بوجھ کر بے طہارت نماز ادا کرنے کو علما کفر لکھتے ہیں اور کیوں نہ ہو کہ اس بے وضو یا بغیر غسل نماز پڑھنے والے نے عبادت کی بے ادبی اور توہین کی ۔

 

نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جنت کی کنجی نماز ہے اور نماز کی کنجی طہارت ہے

 

 (1) ۔ اس حدیث کو امام احمد نے جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا : ”ایک روز نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم صبح کی نماز میں سورہ روم پڑھتے تھے اور متشابہ لگا۔ بعد نماز ارشاد فرمایا کیا حال ہے ان لوگوں کا جو ہمارے ساتھ نماز پڑھتے ہیں اور اچھی طرح طہارت نہیں کرتے انھیں کی وجہ سے امام کو قراءت میں شبہہ پڑتا ہے۔

 

 (2) اس حدیث کو نسائی نے شبیب بن ابی روح سے، انہوں نے ایک صحابی سے روایت کیا۔ جب بغیر کامل طہارت نماز پڑھنے کا یہ وبال ہے تو بے طہارت نماز پڑھنے کی نحوست کا کیا پوچھنا۔ ایک حدیث میں فرمایا: ”

طہارت نصف ایمان ہے“۔ ْ

 

(3) اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا اور کہا کہ یہ حدیث حسن ہے۔ طہارت کی دو قسمیں ہیں۔

(۱) صغری

(۲) گیری

طہارت صغری وضو ہے اور گھر کی نسل ۔ جن چیزوں سے صرف وضو لازم ہوتا ہے ان کو حدث اصغر کہتے ہیں اور جن

سے غسل فرض ہو ان کو حدث اکئیر ۔ ان سب کا اور ان کے متعلقات کا تفصیلاً ذکر کیا جائے گا۔

تنبیه چند ضروری اصطلاحات قابل ذکر ہیں کہ ان سے ہر جگہ کام پڑتا ہے۔

فرض اعتقادی جودلیل قطعی سے ثابت ہو (یعنی ایسی دلیل سے جس میں کوئی شبہ نہ ہو ) اس کا انکار کرنے والا آئمہ حنفیہ کے نزدیک مطلقاً کافر ہے اور اگر اسکی فرضیت دین اسلام کا عام خاص پر روشن واضح مسئلہ ہو جب تو اس کے منکر کے کفر پر اجماع قطعی ہے ایسا کہ جو اس منکر کے کفر میں شک کرے خود کا فر ہے اور بہر حال جو کسی فرض اعتقادی کو بلا عذر صحیح شرعی قصد ایک بار بھی چھوڑے فاسق و مرتکب کبیرہ ومستحق عذاب نار ہے جیسے نماز ، رکوع سجود۔

 

فرض عملی : وہ جس کا ثبوت تو ایسا قطعی نہ ہو گر نظر مجتہد میں محکم دلائل شرعیہ جزم ہے کہ بے اس کے کیے آدمی بری الذمہ نہ ہوگا یہاں تک کہ اگر وہ کسی عبادت کے اندر فرض ہے تو وہ عبادت بے اس کے باطل و کالعدم ہوگی۔ اس کا بے وجہ انکارفسق و گمراہی ہے ، ہاں اگر کوئی شخص کہ دلائل شرعیہ میں نظر کا اہل ہے دلیل شرعی سے اس کا انکار کرے تو کر سکتا ہے۔ جیسے آئمہ مجتہدین کے اختلافات کہ ایک امام کسی چیز کو فرض کہتے ہیں اور دوسرے نہیں مثلاً حنفیہ کے نزدیک چوتھائی سر کا مسح وضو میں فرض ہے اور شافعیہ کے نزدیک ایک بال کا اور مالکیہ کے نزدیک پورے سر کا ، حنفیہ کے نزدیک وضو میں بسم اللہ کہنا اور نیت سنت ہے اور حنبلیہ وشافعیہ کے نزدیک فرض اور ان کے سوا اور بہت سی مثالیں ہیں۔ اس فرض عملی میں ہر شخص اُسی کی پیروی کرے جس کا مقلد ہے اپنے امام کے خلاف بلا ضرورت شرعی دوسرے کی پیروی جائز نہیں۔ واجب اعتقادی: وہ کہ دلیل ظنی سے اس کی ضرورت ثابت ہو۔ فرض عملی و واجب عملی اسی کی دو قسمیں ہیں اور وہ انھیں دو میں منحصر ۔ واجب عملی وہ واجب اعتقادی کہ بے اس کے کیسے بھی بری الذمہ ہونے کا احتمال ہونگر غالب ظن اس کی ضرورت پر ہے اور اگر کسی عبادت میں اس کا بجالانا در کار ہو تو عبادت بے اس کے ناقص رہے مگر ادا ہو جائے۔ مجتہد دلیل شرعی سے واجب کا انکار کر سکتا ہے اور کسی واجب کا ایک بار بھی قصد اچھوڑ نا گناہ صغیرہ ہے اور چند بار ترک کرنا کبیرہ۔

 

سنت مؤکدہ: وہ جس کو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہمیشہ کیا ہو، البتہ بیان جواز کے واسطے کبھی ترک بھی فرمایا ہو یا وہ کہ اس کے کرنے کی تاکید فرمائی ہو مگر جانب ترک پالکل مسدود نہ فرمادی ہو، اس کا ترک اساءت اور کرنا ثواب اور نادر اترک پر عتاب اور اس کی عادت پر استحقاق عذاب۔

سقت غیر مؤکدہ: وہ کہ نظر شرع میں ایسی مطلوب ہو کہ اس کے ترک کو ناپسند ر کھے مگر نہ اس حد تک کہ اس پروعید عذاب فرمائے عام از میں کہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس پر مداومت فرمائی یا نہیں ، اس کا کرنا ثواب اور نہ کرنا اگر چہ عادہ ہو موجب عتاب نہیں۔ منتخب: وہ کہ نظر شرع میں پسند ہو مگر ترک پر کچھ نا پسندی نہ ہو، خواہ خود حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اسے کیا یا اس کی ترغیب دی یا علمائے کرام نے پسند فرمایا اگر چہ احادیث میں اس کا ذکر نہ آیا۔ اس کا کرنا ثواب اور نہ کرنے پرمطلقاً کچھ نہیں ۔

مباح وہ جس کا کرنا اور نہ کرنا یکساں ہو۔

 

حرام قطعی : یہ فرض کا مقابل ہے، اس کا ایک بار بھی قضا کرنا گناہ کبیر و فسق ہے اور بچنا فرض و ثواب ۔ مکروہ تحریمی یہ واجب کا مقابل ہے اس کے کرنے سے عبادت ناقص ہو جاتی ہے اور کرنے والا گنہ گار ہوتا ہے اگر چہ اس کا گناہ حرام سے کم ہے اور چند بار اس کا ارتکاب کبیرہ ہے۔

 

Post a Comment

0 Comments