عیسائیت کی حیران کن ترقی

Ticker

20/recent/ticker-posts-on

عیسائیت کی حیران کن ترقی

 

عیسائیت کی حیران کن ترقی

عیسائیت کی حیران کن ترقی

علماء حق کا سنجیدہ طبقہ اپنی ایمانی فراست اور خداداد بصیرت کے پیش نظر کافی عرصہ سے عیسائیت کی گمراہ کن تبلیغ کے خلاف آواز بلند کرتا رہا ہے اور اکس فتنہ کے دینی و دنیوی مفاسد سے مسلمانوں کو باخبر کرتا رہا ہے، مگر پچھلے دنوں تو بعض اخبارات نے بھی پاکستان میں عیسائیت کی جارحانہ اور مقویانہ حریصانہ تبلیغ اور بہت سے مسلمانوں کے مرتد ہونے کے اعداد و شمار شائع کیے ہیں بعض اخبارات نے یہ لکھا ہے کہ پاکستان بننے کے بعد اب تیک چالیس ہزار سے زیادہ مسلمان عیسائیت قبول کر کے مرتد ہو چکے ہیں (العیاز باللہ اور بعض نے اس سے بھی کہیں بڑھ کر تعداد شائع کی ہے۔ چنانچہ مؤقر جریدہ المنبر لاہور 19 فروری لالہ کی اشاعت میں صفحہ اول پر ملی عنوان کے ساتھ حسب ذیل عبرت آموز سطور شائع ہوئی ہیں۔ رومن کیتھولک عیسائیوں کا ایک اخبار و پراسیکی، کناڈا سے نکلتا ہے جس میں دنیا بھر کی عیسائی مشنریوں کی سرگرمیوں کی تفصیل شائع ہوتی ہے ، اس اخبار نے پاکستان میں عیسائیت کی کامیابی کے عنوان سے لکھا ہے کہ سولہ میں یہاں کے آٹھ ہزار مسلمانوں نے عیسائیت قبول کی ہے اس سے پہلے پاکستان میں ۸۰ ہزار عیسائی تھے لیکن اب ان کی تعداد دو لاکھ اٹھاسی ہزار تین سو باسٹھ (۶۲ ۲۸۸۳) ہے۔ عالمی ادارے کی فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق پاکستان میں تین سو تیس (۳۲۳) پادری ، سات سو بیاسی (۸۲) مرد اور عورتیں بطور مبلغ کام کر رہے ہیں۔ تین سو ستتر (۳۷۷) مدر سے ہیں جو تعلیم کے ذریع عیسائیت کی تبلیغ کر رہے ہیں۔ ان مدارس میں تریسٹھ ہزار چار سو ساٹھ (۶۳۴۶۰) طلبا تعلیم حاصل کر رہے ہیں، بہتر (۷۲) عیسائی ادارے ہسپتالوں وغیرہ کی صورت میں عیسائیت کے لیے زمین ہموار کرتے ہیں ستاسی (۸۷) مذہبی مرکنہ ہیں جہاں عوام کو عیسائی بنایا جاتا ہے ۔ صورت حال سمجھے ک لیے یہ بھی معلوم ہے کہ اللہ کی مردم شماری میں پاکستانی علاقوں میں صرف گیارہ ہزار عیسائی تھے جو بالعموم اھو توں میں سے نکل کہ آئے تھے لیکن اب پراسیکٹر کی روایت کے مطابق دو لاکھ اٹھاسی ہزار تین سو باسٹھ (۲۸۸۳۶۲) افراد نے عیسائیت قبول کر کے اپنی دائمی اور ابدی زندگی تباہ و برباد کر دی ہے۔" اور اس فتنہ کی حیرت افزا ترقی سے صرف علماء حق اور اخباری طبقہ ہی پریشان نہیں بلکہ خود حکومت پاکستان کو اس پر کافی تشویش ہے چنانچہ ہمارے محترم وزیر داخلہ مسٹر ذاکر حسین صاحب نے پاکستان کی آبادی کے اعداد و شمار بتاتے ہوئے عیسائیوں کی اس بہتات پر تعجب کا اظہار کیا ہے ۔

چنانچہ متعدد دیگر اخبارات کے علاوہ موقر اخبار نوائے وقت درہم، نوبران مت کا طر (۳) لکھتا ہے کہ :۔

پاکستان میں مسیحیوں کی تعداد گزشتہ ساٹھ سال میں تئیس گنا ہو گئی ہے ۔ وزیر داخلہ نے اعلان کیا ہے کہ میسجیوں کی آبادی میں اس حیران کن اضافہ کے اسباب کی تحقیقات کی جائے گی ؟

پاکستان جیسی سب سے بڑی اسلامی مملکت میں جس کی بنیاد اور وجود ہی خالص اسلام کی خاطر عمل میں لایا گیا اور جس کے منصہ شہود میں لانے کے لیے کم و بیش ۲۴ لاکھ جانوں کی قربانی دی گئی ۔ ہزاروں عورتوں کی عصمتیں خاک میں ملیں ، لاکھوں بچے یتیم ہوئے ، ہزاروں ماؤں سے اُن کے لعل و گوہر مسلوب ہوئے اور ہزاروں عورتیں خاوندوں کی شفقت سے محروم ہوئیں ، یہ بڑی ہی حیرت و استعجاب کی بات ہے جس پر اگر خون کے آنسو بھی بہائے جائیں تو کم ہیں، کون سا ئیور اور حق گو مسلمان یہ باور کر سکتا ہے کہ اپنی اجتماعی اور روحانی زندگی کے تحفظ کی پر دانہ کی جائے اور پینے ٹھوس اور محکم عقائد ، عادلانہ اعمال ، بهترین اخلاق اور صحیح نظریات کے خلاف ہر قسم کے فتنہ جویانہ اور مفسدانہ طرز عمل اور ریشہ دوانی کو ہمیشہ برداشت کیا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہو کہ مسلمانوں کا بار عیب نام ہی صفحہ ہستی سے مٹ جائے اور پاکستان جیسی سب سے بڑی اسلامی سلطنت هباء منثورا ہو کر رہ جائے ۔ یہ سب کچھ کیوں ؟ محض اس لئے کہ مسلمانوں میں قرآن و حدیث کی نہیں تعلیم مطعود ، دینی غیرت  اور حمیت عنقا ، جرات اور حق گوئی ناپید، روحانیت اور دینی حرارت اپنے اسلاف کے ایمان افروز کار نامے نگاہوں سے اوجھل ہیں اور و ان اوصاف حمیدہ کی جگہ شرک و بدعت جہالت و غفلت ، تن آسانی اور طبع و لالچ وغیرہ کی مضبوط زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں اس لئے خالق کائنات نے ان کو آسمان کی بلندی سے زمین کی پستی پر دے مارا ہے۔

گزاری ہم نے جو اسلام سے میراث پائی تھی

ثریا نے زمین پر آسمال سے ہم کو دے مارا

حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے قلب و نگاہ میں جب تک تغیر واقع نہ ہو گا وہ کبھی اپنے اسلاف کے عمدہ کارناموں ، روحانی سر بلندیوں اور ایمانی سرفرازیوں سے باریاب نہیں ہو سکیں گے ۔ اور ہمیں یہ گھتے ہیں بالکل باک اور نائل نہیں ہے کہ بعض لوگوں کے اسلام سے متنفر ہونے کا سبب خود مسلمانوں کا غیر اسلامی کردار اور شعائر اسلام سے بے پروائی اور غفلت بھی ہے ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ایک وہ دور تھا جس میں مسلمانوں کے اجتماعی ماحول اور ان کی شکلوں اور صورتوں اور ان کے کردار اور گفتار سے متاثر ہو کر لوگ مسلمان ہوتے تھے۔ چنانچہ امام احمدبن حنبل رو (المتوفی ۲۲) کے جنازہ میں حسب تصریح علامہ بغدادی رو اور حافظ ابن حجر ر ہ آٹھ لاکھ مرد اور ساٹھ ہزار عورتیں شریک ہوئیں (بغدادی ۴۲ ماه و تهذیب التهذیب 7 اص) اور حسب تصریح شیخ الاسلام ۳۲۲

 

ابن تیمیہ روسولہ لاکھ سے زائد انسان شریک جنازہ ہوئے ۔ (نقض من طبع القاہرہ حریم) اور اس جنازہ میں مسلمانوں کے حسن کردار سے متاثر

ہو کہ جو لوگ مسلمان ہوئے وہ بھی ملاحظہ کر لیں ۔

واسلم يومئذ عشرون . کہ اس دن بیس ہزار یہودی الضامن اليهود والنصارى والمجوس عیسائی اور مجوسی مسلمان ہوئے تھے ۔ تاریخ بغدام ما و نقض المنطق مد )

یہ صرف ایک دن اور ایک جنازہ میں شرکت کی وجہ سے میں ہزارہ مسلمان ہوئے تھے مگر افسوس کہ آج اسلام اور اس کی عمدہ خصلتیں صرف کتابوں اور سفینوں کی زینت ہیں اور مسلمان جہالت کا شکار ہو کر بخیر اسلامی اخلاق اور خلاف اسلام رسموں اور رواجوں میں کچھ ایسے الجھ کرہ گئے ا ہیں کہ غیر تو کیا مسلمان ہوتے ، خود اپنے بھی غیروں کی آغوش میں پناہ ڈھونڈ کر ربقہ اسلام سے گلو خلاصی کے در پلے ہیں۔ خالی الله المشتکی اے مسلمان ، تو اپنا منصب تو سوچ کہ کیا ہے ؟ "

حق نے کر ڈالی ہیں دوسری خدمتیں تیرے پر

خود تڑپنا ہی نہیں اور دل کو تڑپانا بھی ہے

مقام حیرت ہے کہ پادری صاحبان کو کلیساؤں اور ہیکلوں خانقا ہوں اور عزلت کدوں میں اپنی اور اپنے پیشواؤں کی سیاہ کاریوں کا دور تو یاد نہیں جس کے تصور سے حیا کی آنکھیں زمین میں گڑ جاتی ہیں اور ان کو کبھی اپنی مجرمانہ اور رومانی زندگی پر توبہ کرنے کی فرصت ہی نہیں ہوئی اور نہ

 

 

انہوں نے اس کو معیوب سمجھنے کی طرف نگاہ اٹھائی او ہی مبذول کی ہے ، ہاں مگر ان کو پیغمبر اسلام علیہ الصلوٰۃ والسّلام ) آپ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنن ) کی عفت و عصمت اور بے داغ زندگی اور بے عیب اخلاق پر حملہ کرنے کی آئے دن نئی نئی تعبیریں خوب سوجھتی رہتی ہیں۔ بائیبل کی تحریف اور تغیر کی طرف ان کی نازک اور فریب خور وہ نگاہ تو کہیں اُٹھتی ہی نہیں لیکن قرآن و حدیث میں کمی و بیشی اور حک و اضافہ کی بزعم خود کئی ایک خام دلیلیں ان کو یہ زمین یا بالفاظ دیگر نهان خانوں سے ضرور دستیاب ہو جاتی ہیں انہوں نے اسلام کو بدنام کرنے اور معاذ اللہ اس میں مصنوعی کیڑے نکالنے کے لیے کئی ایک حربے استعمال کئے ہیں مثلاً ایک یہ کہ اسلام تو بزور شمشیر پھیلایا گیا ہے ، مسلمانوں نے جہاد کر کے بنجر لوگوں کو مسلمان بنایا ہے مگر یہ اتنا اور ایسا لچر اعتراض ہے جس کی طرف توجہ کرنا بھی مناسب نہیں کیونکہ اسلام نہ تو بجبر پھیلا اور نہ پھیلایا گیا۔ اسلام تو ایک فطری مذہب ہے اور اس کی فطرت ، فطرت الہی اور قانون قدرت کے بالکل موافق ہے ۔ اس کی ذاتی کشش اور جاذبیت ہی لوگوں کے دلوں کو اپیل کرتی اور ان کے قلوب واذہان میں اللہ کرتی رہی ہے ۔ اسلام کی راہ وہ معتدل اور فطری راہ ہے جو درستی نظام و آئین اور حصول طمانیت وعافیت کے لیے سب سے زیادہ بہتر کفیل اور ضامن ہے اگر اس کو کسی منصف مزاج نے قبول کیا ہے تو محض اس کی ذاتی خوبی اور

 

 

دائرہ اکشش کی وجہ سے قبول کیا ہے نہ یہ کہ زور اور جبر سے اسے قبول کیا

ہے کیونکہ وہ سراسر رحمت ہے ۔ سے

ترا آنا زمانے کے لیے رحمت کا باعث ہے

جو کافر اس کا منکر ہے بہت نادان ہے ساقی

Post a Comment

0 Comments