وُضو توڑنے والی چیزوں کا بیان

Ticker

20/recent/ticker-posts-on

وُضو توڑنے والی چیزوں کا بیان

 

وُضو توڑنے والی چیزوں کا بیان

وُضو توڑنے والی چیزوں کا بیان

پاخانہ، پیشاب، و دی ،  مذی، منی ، کیڑا ، پتھری مرد یا عورت کے آگے یا پیچھے سے نکلیں وضو جاتا رہے گا ۔ (4)


اگر مرد کا ختنہ نہیں ہوا ہے اور سوراخ سے ان چیزوں میں سے کوئی چیز نکلی مگر ابھی ختنہ کی کھال کے اندر ہی ہے جب بھی وضوٹوٹ گیا۔

یو ہیں عورت کے سوراخ سے نکلی مگر ہنوز ، اوپر والی کھال کے اندرہی ہے جب بھی وضو جاتارہا۔


عورت کے آگے سے جو خالص رطوبت بے آمیزش خون نکلتی ہے ناقض وضو نہیں ، اگر کپڑے میں لگ

جائے تو کپڑا پاک ہے۔


مرد یا عورت کے پیچھے سے ہوا خارج ہوئی وضو جاتا رہا۔


مرد یا عورت کے آگے سے ہو انگلی یا پیٹ میں ایسا زخم ہو گیا کہ چھلی تک پہنچا، اس سے ہو انکلی تو ضو نہیں جائیگا ۔


عورت کے دونوں مقام پردہ پھٹ کر ایک ہو گئے اسے جب ریح آئے اختیاط یہ ہے کہ وضو کرے

اگرچہ یہ احتمال ہو کہ آگے سے نکلی ہوگی۔


اگر مرد نے پیشاب کے سوراخ میں کوئی چیز ڈالی پھر وہ اس میں سے لوٹ آئی تو وضو نہیں جائے گا۔


ختنہ کیا اور دو باہر آگئی یا کوئی چیز پاخانہ کے مقام میں ڈالی اور باہر نکل آئی وضو ٹوٹ گیا۔


مرد نے سوراخ ذگر میں روئی رکھی اور وہ اوپر سے خشک ہے مگر جب نکالی، تو کر نکلی تو نکالتے ہی وضوٹوٹ گیا۔

یو ہیں عورت نے کپڑارکھا اور فرج خارج میں اس کپڑے پر کوئی اثر نہیں مگر جب نکالا تو خون یا کسی اور نجاست سے ترنکلا اب وضو جاتا رہا۔ مسلة 1 ستان خون یا پیپ یا زرد پانی کہیں سے نکل کر بہا اور اس بہنے میں ایسی جگہ پہنچنے کی صلاحیت تھی جس کا وضو یا غسل میں دھونا فرض ہے تو ضو جاتا رہا اگر صرف چکا یا اُبھرا اور بہانہیں جیسے سوئی کی نوک یا چاقو کا کنارہ لگ جاتا ہے اور خون اُبھریا چمک جاتا ہے یا خلال کیا یا مسواک کی یا انگلی سے دانت ما تجھے یا دانت سے کوئی چیز کائی اس پر خون کا اثر پایا یا ناک میں اُنگلی ڈالی اس پر خون کی سرخی آگئی مگر وہ خون بہنے کے قابل نہ تھا تو وضو نہیں ٹوٹا۔


اور اگر بہا مگر ایسی جگہ یہ کر نہیں آیا جس کا دھونا فرض ہو تو ضو نہیں ٹوٹا۔ مثلاً آنکھ میں دانہ تھا اور ٹوٹ کر آنکھ کے اندر ہی پھیل گیا با ہر نہیں نکلا یا کان کے اند روانہ ٹوٹا اور اس کا پانی سوراخ سے باہر نہ نکلا تو ان صورتوں میں وضو باقی ہے۔


زخم میں گڑھا پڑ گیا اور اس میں سے کوئی رطوبت چنکی مگر یہی نہیں تو ضو نہیں ٹوٹا۔


زخم سے خون وغیرہ نکلتا رہا اور یہ بار بار پونچھتا رہا کہ بہنے کی نوبت نہ آئی تو غور کرے کہ اگر نہ پونچھتا تو ،بہ جاتا یا نہیں اگر یہ جاتا تو و ضوٹوٹ گیا ورنہ نہیں۔ یو ہیں اگر مٹی یا راکھ ڈال ڈال کر سکھاتا رہا اس کا بھی وہی حکم ہے۔


 پھوڑ یا پھنسی نچوڑنے سے خون بہا، اگر چہ ایسا ہو کہ نہ نچوڑتا تو نہ بہتا جب بھی وضو جاتا رہا۔


آنکھ، کان، ناف، پستان و غیر ہا میں دانہ یا ناصور یا کوئی بیماری ہو، ان وجوہ سے جو آ نسو یا پانی سے وضو توڑ

دے گا۔

 زخم یا ناک یا کان یا مونھ سے کیڑا یا زخم سے کوئی گوشت کا ٹکڑا ( جس پر خون یا پیپ کوئی نجس رطوبت قابل

سیلان نہ تھی ) کٹ کر گرا وضو نہیں ٹوٹے گا۔

کان میں تیل ڈالا تھا اور ایک دن بعد کان یا ناک سے نکلا وضو نہ جائے گا یو میں اگر مونھ سے نکالا جب بھی ناقض نہیں ہاں اگر یہ معلوم ہو کہ دماغ سے اتر کر معدہ میں گیا اور معدہ سے آیا ہے تو و ضوٹوٹ گیا۔


چھالانوچ ڈالا اگر اس میں کا پانی بہ گیاؤ ضوجا تار باور نہ نہیں ۔


مونھ سے خون نکلا اگر تھوک پر غالب ہے وضو توڑ دے گا ورنہ نہیں۔


فائدہ غلبہ کی شناخت یوں ہے کہ تھوک کا رنگ اگر سرخ ہو جائے تو خون غالب سمجھا جائے اور اگر زرد ہو تو مغلوب۔


جو تک یا بڑی تھی نے خون چوسا اور اتناہی لیا کہ اگر خود نکلتا تو بہ جا تالا ضو ٹوٹ گیا ورنہ نہیں۔


اگر چھوٹی گلی باہوں یا کھٹمل مچھر لکھی ، پتو نے خون چوسا تو ضو نہیں جائے گا۔


ناک صاف کی اس میں سے جما ہوا خون نکلاؤ ضو نہیں ٹوٹا۔


نارو  سے رطوبت بہے وضو جاتا رہے گا اور ڈورا نکلا توؤ ضو باقی ہے۔


اندھے کی آنکھ سے جو رطوبت بوجہ مرض نکلتی ہے ناقض وضو ہے۔ )


مونھ بھر قے کھانے یا پانی یا صفرا  کی وضو توڑ دیتی ہے۔


فائدہ : مونھ بھر کے یہ معنے ہیں کہ اسے بے تکلف نہ روک سکتا ہو۔

 بلغم کی قے وضو نہیں تو ڑتی جتنی بھی ہو۔

بہتے خون کی قے وضو توڑ دیتی ہے جب تھوک سے مغلوب نہ ہو اور جما ہوا خون ہے تو وضو نہیں جائے گا جب تک مونھ بھر نہ ہو۔ پانی پیا اور معدے میں اُتر گیا ، اب وہی پانی صاف شفاف قتے میں آیا اگر مونھ پھر ہے وضو ٹوٹ گیا اوروہ پانی نجس ہے اور اگر سینہ تک پہنچا تھا کہ اچھو لگا اور نکل آیا تو ہ وہ ناپاک ہے نہ اس سے وضو جائے ۔


اگر تھوڑی تھوڑی چند بار قے آئی کہ اس کا مجموعہ مونھ بھر ہے تو اگر ایک ہی متلی سے ہے تو وضو توڑ دے گی اور اگر متلی جاتی رہی اور اس کا کوئی اثر نہ رہا پھر نئے سرے سے متلی شروع ہوئی اور قے آئی اور دونوں مرتبہ کی علیحدہ علیحدہ مونھ بھر نہیں مگر دونوں جمع کی جائیں تو موٹھ بھر ہو جائے تو یہ ناقض وضو نہیں، پھر اگر ایک ہی مجلس میں ہے تو وضو کر لینا بہتر ہے ۔


قے میں صرف کیڑے یا سانپ نکلے وضو نہ جائے گا اور اگر اس کے ساتھ کچھ رطوبت بھی ہے تو دیکھیں گے مونھ بھر ہے یا نہیں۔ مونھ بھر ہے تو ناقض ہے ورنہ نہیں۔


سو جانے سے وضو جاتا رہتا ہے بشرطیکہ دونوں سرین خوب نہ  جمے ہوں اور نہ ایسی ہیات پر سویا ہو جو غافل ہو کر نیند آنے کو مانع ہو مثلا اکڑوں بیٹھ کر سویا یا چت یا پٹ یا کروٹ پر لیٹ کر یا ایک گہنی پر تکیہ لگا کر یا بیٹھ کر سویا مگر ایک کروٹ کو جھکا ہوا کہ ایک یا دونوں سرین اٹھے ہوئے ہیں یا نگی پیٹھ پر سوار ہے اور جانور ڈھال میں اتر رہا ہے یا دو زانو بیٹھا اور پیٹ رانوں پر رکھا کہ دونوں سرین جسے نہ رہے یا چار زانو ہے اور سر رانوں پر یا پنڈلیوں پر ہے یا جس طرح عورتیں سجدہ کرتی ہیں اس بیات پر سو گیا ان سب صورتوں میں وضو جاتا رہا اور اگر نماز میں ان صورتوں میں سے کسی صورت پر قصد آسو یا تو وضو بھی گیا، نماز بھی گئی وضو کر کے سرے سے نیت باندھے اور بلا قصد سویا تو وضو جاتا رہا نماز نہیں گئی۔ وضو کر کے جس رکن میں سویا تھا وہاں سے ادا کرے اور از سر نو پڑھنا بہتر ہے۔

 دونوں سرین زمین یا کرسی یا بیچ پر ہیں اور دونوں پاؤں ایک طرف پھیلے ہوئے یا دونوں سرین پر بیٹھا  ہے اور گھٹنے کھڑے ہیں اور ہاتھ پنڈلیوں پر محیط ہوں خواہ زمین پر ہوں ، دوزانو سیدھا بیٹھا ہو یا چار زانو پالتی مارے یا زین پر سوار ہو یا نگی پیٹھ پر سوار ہے مگر جانور چڑھائی پر چڑھ رہا ہے یا راستہ ہموار ہے یا کھڑے کھڑے سو گیا یا رکوع کی صورت پر یا مردوں کے سجدہ مسنونہ کی شکل پر تو ان سب صورتوں میں وضو نہیں جائے گا اور نماز میں اگر یہ صورتیں پیش آئیں تو نہ وضو جائے نہ نماز ، ہاں اگر پورا رکن سوتے ہی میں ادا کیا تو اس کا اعادہ ضروری ہے اور اگر جاگتے میں شروع کیا پھر سو گیا تو اگر جاگتے میں بقدر کفایت ادا کر چکا ہے تو وہی کافی ہے ورنہ پورا کر لے۔


اگر اس شکل پر سویا جس میں وضو نہیں جاتا اور نیند کے اندر وہ ہیات پیدا ہوگئی جس سے وضو جاتا رہتا ہے تو اگر فور ابلا وقفہ جاگ اٹھاؤ ضونہ گیا ورنہ جاتا رہا۔گرم تئور کے کنارے پاؤں لٹکائے بیٹھ کر سو گیا تو ضو کر لینا مناسب ہے۔بیمار لیٹ کر نماز پڑھتا تھا نیند آ گئی وضو جاتا رہا۔ اُونگھنے یا بیٹھے بیٹھے جھونکے لینے سے وضو نہیں جاتا ۔

جھوم کر گر پڑا اور فوراً آنکھ کھل گئی وضو نہ گیا۔


نماز وغیرہ کے انتظار میں بعض مرتبہ نیند کا غلبہ ہوتا ہے اور یہ دفع کرنا چاہتا ہے تو بعض وقت ایسا غافل ہو جاتا ہے کہ اس وقت جو باتیں ہوئیں ان کی اسے بالکل خبر نہیں بلکہ دو تین آواز میں آنکھ کھلی اور اپنے خیال میں یہ سمجھتا ہے کہ سویا نہ ہی تھا اس کے اس خیال کا اعتبار نہیں اگر معتبر شخص کہے کہ تو غافل تھا، پکارا جواب نہ دیا یا با تیں پوچھی جائیں اور وہ نہ بتا سکے تو اس پر وضولا زم ہے۔


فائدہ انبیاء علیہم السلام کا سونا ناقض وضو نہیں ان کی آنکھیں سوتی ہیں دل جاگتے ہیں۔ علاوہ نیند کے اور نواقض سے انبیاء علیہم السلام کا وضو جاتا ہے یا نہیں اس میں اختلاف ہے، صحیح یہ ہے کہ جاتا رہتا ہے بوجہ ان کی عظمت شان کے، نہ بسبب نجاست کے، کہ انکے فضلات شریفہ طیب وطاہر ہیں جن کا کھانا پینا ہمیں حلال اور باعث برکت ۔

بیہوشی اور جنون اور خشی اور اتنا نشہ کہ چلنے میں پاؤں لڑکھڑائیں ناقض وضو ہیں۔بالغ کا قہقہہ یعنی اتنی آواز سے ہنسی کہ آس پاس والے سنیں اگر جاگتے میں رکوع سجدہ والی نماز میں ہو وضو ٹوٹ جائے گا اور نماز فاسد ہو جائے گی۔


اگر نماز کے اندرسوتے میں یا نماز جنازہ یا سجدہ تلاوت میں قہقہہ لگایا تو وضو نہیں جائے گا وہ نماز یا سجدہ  فاسد ہے۔اور اگر اتنی آواز سے ہنسا کہ خود اس نے سنا، پاس والوں نے نہ سنا تو ؤ ضو نہیں جائے گا نماز جاتی رہے گی۔


اگر مسکرایا کہ دانت نکلے آواز بالکل نہیں نکلی تو اس سے نہ نماز جائے نہ وضو ۔

مباشرت فاحشہ یعنی مرد اپنے آلہ کو تندی کی حالت میں عورت کی شرمگاہ یا کسی مرد کی شرمگاہ سے ملائے یا عورت عورت باہم ملا ئیں بشرطیکہ کوئی شے حائل نہ ہو ناقض وضو ہے۔

اگر مرد نے اپنے آلہ سے عورت کی شرمگاہ کو مس کیا اور انتشار آلہ نہ تھا عورت کا وضو اس وقت میں بھی جاتا رہے گا اگر چہ مرد کا وضونہ جائے گا۔  

  بڑا استجاڈھیلے سے کر کے وضو کیا اب یاد آیا کہ پانی سے نہ کیا تھا اگر پانی سے استنجا مسنون طریق پر یعنی پاؤں پھیلا کر سانس کا زور نیچے کو دے کر کرے گاؤ ضو جاتا رہے گا اور ویسے کرے گا تو نہ جائے گا مگر وضو کر لینا مناسب ہے۔

 پھڑ یا بالکل اچھی ہوگئی اس کا مردہ پوست باقی ہے جس میں او پر مونھ اور اندر خلا ہے اگر اس میں پانی بھر گیا پھر دبا کر نکالا تو نہ وضو جائے نہ وہ پانی ناپاک ہاں اگر اس کے اندر کچھ تری خون وغیرہ کی باقی ہے تو وضو بھی جاتا رہے گا اور وہ پانی بھی نجس ہے۔

 عوام میں جو مشہور ہے کہ گھٹنایا اورستر کھلنے یاا پنا یا پرایا ستر دیکھنے سے وضو جاتا رہتا ہے محض بے اصل بات ہے۔ ہاں وضو کے آداب سے ہے کہ ناف سے زانو کے نیچے تک سب ستر چھپا ہو بلکہ استنجے کے بعد فورا ہی چھپا لینا چاہیئے کہ بغیر ضرورت ستر کھلا رہنا منع ہے اور دوسروں کے سامنے ستر کھولنا حرام ہے۔

 متفرق مسائل

جو رطوبت بدن انسان سے نکلے اور وضو نہ توڑے وہ نجس نہیں مثلا خون کہ یہ کر نہ نکلے یا تھوڑی تے کہ موجھ بھر نہ ہو پاک ہے۔


خارش یا پھڑیوں میں جب کہ بہنے والی رطوبت نہ ہو بلکہ صرف چپک ہو، کپڑا اس سے بار بار چھو کر اگر چہ کتنا ہی سن جائے ، پاک ہے۔ سوتے میں رال جو مونھ سے گرے، اگر چہ پیٹ سے آئے ، اگر چہ بد بودار ہو، پاک ہے۔مردے کے مونھ سے جو پانی بہے نجس ہے۔آنکھ دُکھتے میں جو آنسو بہتا ہے نجس و ناقض وضو ہے، اس سے اختیاط ضروری ہے۔


شیر خوار بچے نے دودھ ڈال دیا اگر وہ مونہہ  بھر ہے نجس ہے، درہم سے زیادہ جگہ میں جس چیز کو لگ جائے نا پاک کر دے گا لیکن اگر یہ دودھ معدہ سے نہیں آیا بلکہ سینہ تک پہنچ کر پلٹ آیا تو پاک ہے۔


درمیان وضو میں اگر ریح خارج ہو یا کوئی ایسی بات ہو جس سے وضو جاتا ہے تو نئے سرے سے پھر وضو کرے وہ پہلے دُھلے ہوئے بے دُھلے ہو گئے ۔ چلو میں پانی لینے کے بعد حدث ہو اوہ پانی بے کار ہو گیا کسی عضو کے دھونے میں نہیں کام آ سکتا۔

مونہہ سے اتنا خون نکلا کہ تھوک سرخ ہو گیا اگر لوٹے یا کٹورے کو مونہہ سے لگا کر گلی کو پانی لیا تو لوٹا، کٹورا اور کل پانی نجس ہو جائے گا۔ چلو سے پانی لے کر کلی کرے اور پھر ہاتھ دھو کر کلی کے لیے پانی لے۔


اگر درمیان و ضو میں کسی عضو کے دھونے میں شک واقع ہوا اور یہ زندگی کا پہلا واقعہ ہے تو اس کو دھولے اور اگر اکثر شک پڑا کرتا ہے تو اسکی طرف التفات نہ کرے۔ یو ں ہیں اگر بعد وضو کے شک ہو تو اس کا کچھ خیال نہ کرے۔

Post a Comment

0 Comments